الموقع |
التاريخ |
|
عیالہ میوزیم ، میکاتی سٹی، منیلا | 26/02/2007 - 15/03/2007 | |
سنہری مسجد اور اسلامی مرکز ، منیلا | 04/04/2007 - 11/04/2007 | |
گرین ہلز شاپنگ سینٹر ، سان جوآن، منیلا | 18/04/2007 - 30/04/2007 | |
بگیو یونیورسٹی ، بگیو سٹی، منیلا | 07/08/2007 - 21/08/2007 | |
فلپائن یونیورسٹی، قوئیزون سٹی، منیلا | 30/08/2007 - 31/08/2007 | |
سٹی کولیزئیم، پیورتو پرنسیسا سٹی، منیلا | 03/06/2008 - 30/06/2008 |
بر طانیہ میں ایک مسلمان کی حیثیت سے رہنا کتنا اچھا ہوگا۔وہ تو حج پر جانے والوں کی بھی مدد کرتے ہیں"( انصاری علی، ایک فلپائنی مسلمان)
مسلمان وہاں کتنی ہم آہنگی سے رہتے ہیں۔ وہ واقعی ایک کثیر الثقافتی معاشرہ ہے""
( بل لوز، بزنس مین)
" صرف تصاویر کو دیکھنے سے آپ بخوبی یہ جان سکتے ہیں کہ یہ تصویریں اپنے دیکھنے والوں کو کیا بتانا چاہتی ہیں۔ تصویروں سے مجھے اسلامی ثقافت کے بارے میں علم ہوا کیونکہ وہ محض تصویریں نہیں ، نمائش میں موجود ہر تصویر اپنے منفرد معنی رکھتی ہے۔ مجھے امید ہے کہ مزید تصاویر کی نمائش بھی ہوگی تاکہ مزید توجہ حاصل ہوسکے۔اس تصویری نمائش سے دیکھنے والوں کے ذہن مذہب اسلام کے بارے میں کھلیں گے کہ وہ بھی معاشرہے کا حصہ ہیں۔اور یہ کہ مسلمان بھی فعال ہیں اور ہمارے معاشرے میں ان کا بڑا کردار ہے"۔( ملڈرڈ آربینو، یونیورسٹی کا طالب علم)
"تصاویر سے معلوم ہوتا ہے کہ انہیں آسانی سے سمجھا جا سکتا ہے۔ وہ اسلام کی حقیقت کے بارے میں تصورات کی عکاسی کرتی ہیں۔اکثر ہم اسلام کو دہشت گردی سے تعبیر کرتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ تمام مسلمان برے نہیں ہیں"۔( جئیرادا ایبت،یونیورسٹی طالب علم)
"جب ہم لفظ اسلام سنتے ہیں تو سب سے پہلا تاثر جو ذہن میں پیدا ہوتا ہے وہ دہشت گرد اور ابو سیاف کے آدمیوں کا ہوتا ہے۔ ہم اکثر ان افراد کی تحقیر کرتے ہیں اور اپنے معاشرے میں ان کو شامل نہیں کرتے جو کہ بہت غلط ہے۔۔جب میں ان تصاویر کو دیکھ رہا تھا تو میں نے اپنے دل میں گرمجوشی اور تحفظ کی لہر محسوس کی۔ کیونکہ میں نے محسوس کیا کہ ان کی ثقافت اور مذہب اسلام ہم دوسرے عقیدے کے لوگوں کے لئے ضرررساں نہیں۔ان کی ثقافت عظیم ہے اور ان کا مذہب منفرد بھی ہے۔ اس لئے ان کو الگ تھلگ نہیں کرنا چاہئیے، بلکہ آئیے ہم اپنے بازو کھول دیں اور انہیں اپنے معاشرے میں پورے دل سے قبول کرلیں ۔کیونکہ یہ فرمان ہے کہ ' اپنے پڑوسی سے اتنی ہی محبت کرو جتنی خود سے کرتے ہو' "۔( اینجلا جوآن، یونیورسٹی طالبہ)